۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ علما نے تحفظ دین و شریعت کی شکل میں جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ قیامت تک پورے امت کی راہ نمائی کرتا رہے گا۔ ہمارے ائمہ جمعہ والجماعت اور خطیبوں اور مقرروں کو اپنے خطبوں اور خطابت میں ایسے پہلو کو غالب رکھنا ہوگا جس سے بد عقیدگی پیدا نہ ہو اور سامعین کی فکری وعملی اصلاح ہو اور موجودہ دور میں پھیلی دین بیزاری کا سد باب ہوسکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے معروف مبلغ و اسکالر اور اہل بیت ؑ فاؤنڈیشن کے نائب صدر مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی نے کہا کہ موجودہ اسلام فوبیا کے اس دور میں نیز ایک منظم سازش کے ذریعہ لوگوں کا علمائے امت پر سے اعتماد ختم کیا جارہا ہے اور امت میں توہین ِعلما کا فتنہ بھی زور پکڑرہا ہے۔

موصوف نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ علماء کرام اپنے اپنے علاقوں اور شہروں میں دین کے ہادی و پیشوا اور قوم کے مقتدا ہیں۔اور اللہ جب کسی کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسے یہ عظمت و شان اور یہ رفیع مقام و منزلت عطا کردیتا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ان کے اس رفیع منصب کے لحاظ سے ان پر بڑی گرانقدر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اس لیے ہم سب کے ساتھ ساتھ ان کا فرض اولین ہے کہ وہ اپنی عظیم الشان ذمہ داریوں کو پوری طرح محسوس کریں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی تدابیر اور اپنی قوم و ملت کے اعتماد کو برقرار رکھنے اور اس پر کَھرا اترنے کی کوشش کریں۔

مولانا تقی نے کہا کہ اس وقت چاروں طرف نظر دوڑاکر دیکھئے، ہر سَمت آپ کو اسلام اور شیعیت کے لبادہ میں مختلف گمراہ کن تحریکوں اور تنظیموں کا جال بچھا ہوا نظر آئے گا، ہر سَمت اسبابِ ضلالت و گمراہی، کج فکری اور بد عقیدگی کی بہتات ہے،اور سادہ لوح معصوم نوجوانوں کو غیر شعوری طور پر اسلامی تعلیمات اور راہِ حق سے بر گشتہ کرنے اور انھیں اپنے خود ساختہ غلط و بے بنیاد عقائد و افکار میں مبتلا کرنے، خاص کر انہیں علما و مراجع کرام سے متنفر و بیزار اور دور کرنے کی ہر طرح کے حربے اختیار کیے جارہے ہیں،لیکن! یہ بات ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے کہ دشمن لاکھ کوشش کے باوجوداپنے ناپاک ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور نہ ہی قوم کو علمائے حق اور حاملینِ علوم نبوت سے دور کرسکتا ہےاور نہ ہی قوم کےلوگ علماء و مراجع کرام سے کسی لمحہ بے نیاز ہوسکتے ہیں ۔

علما نے تحفظ دین و شریعت کی شکل میں جو عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ قیامت تک پورے امت کی راہ نمائی کرتا رہے گا۔

اہل بیت ؑ فاؤنڈیشن کے نائب صدر مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی نے کہا کہ اس وقت خصوصاً ہند و پاک کی یہ صورتِ حال ہے کہ یہاں ،علما بیزار نام نہاد شیعہ خطیب و مقررین،واعظین اور شعرا کے سبب کچھ شہروں، دیہاتوں اور علاقوں میں لوگ گروہ در گروہ ، اخباریت اور ملنگیت جیسی دیگر مہلک بیماریوں ( اصولی و اخباری ،مقلد و غیر مقلد،اجتہادی و غیر اجتہادی اور مقصر و غیر مقصروغیرہ ) میں مبتلا ہو کر مذہب حقہ کے خالص عقائد و آئیڈیالوجی سے کج راہی اختیار کررہے ہیں لہذا منصبِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ علمائے حق ، قوم و ملت کی اس بے راہ روی بد چلنی اور گمراہی پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں اور وہ اس وقت تک چین وسکون کی سانس نہ لیں؛ جب تک کہ اس کے بچاؤ کی ممکنہ تدابیر نہ اختیار کریں اس لئے کہ علماء اور عوام کی مثال ایسی ہی ہے، جیسے نبی اور امت کی مثال ہو تی ہے۔

وقتِ فرصت کہاں ، کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے

مولانا تقی عباس رضوی رضوی کلکتوی نے کہا: ’’العلماء ورثة الأنبياء‘‘ کے پیش نظر رسول اللہ کی جو امانت ان کے سپرد کی گئی ہے، اس کے لیے فکرمند ہوں اورپوری قوم و ملت کو پیغمبر اکرم اور آپ ؐ کے آل ؑکی راہ پر لانے کی ہرممکن کوشش کریں ،خاص کر نوجوان طبقہ کو اس بھاگ دوڑ کی روز مرہ پر آشوب زندگی میں دین سے مانوس کرنے کی سعی کریں اور ان کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے بھی وقت اپنا سرمایہ وقت صرف کریں.اور ائمہ جمعہ والجماعت اور خطیبوں اور مقرروں کو اپنے خطبوں اور خطابت میں ایسے پہلو کو غالب رکھنا چاہئیے جس سے بد عقیدگی پیدا نہ ہو اور سامعین کی فکری وعملی اصلاح ہو اور موجودہ دور میں پھیلی دین بیزاری کا سد باب ہوسکے۔

اہل بیت ؑ فاؤنڈیشن کے نائب صدر مولانا تقی عباس رضوی نے کہا کہ ہمیں اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ اُجرت کے عوض چند گھنٹے مجالس و محافل میں صرف کردینے سے زکاتِ علم کی ادائیگی نہیں ہوگی بلکہ انہیں پوری لگن اور تدبیر و تفکر کے ساتھ عملی جامہ پہنانا پڑے گا. نیز انہیں اپنے دُنیوی ترجیحات و مفادات سے اوپر اٹھ کر اس بات کی فکر و حرص ہونی چاہیے کہ ان کے وجود سے پوری قوم کے لوگوں کو دینی نفع پہنچے اور لوگوں کا تعلق دین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قائم و مظبوط ہو، اس کے لیے سب سے پہلا کام علماء اور عوام کے درمیان ربط و صحیح تعلق ہے جسے بحال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے پھر اس اہم امور کی انجام دہی کے لئے علماء ِ دین کو عمومی دعوت و تبلیغ، عمومی تعلیم وتربیت اور عمومی نقل وحرکت اور جدوجہد کی راہ اپنانا ہوگا اور عوام سے گھل مل کر حتی الامکان ان کے مسائل سے واقفیت اور ان کے حل کی حتی المقدور کوشش اور ان کی ضروریات کی تکمیل کے امکانات پیدا کرنے ہوں گے، ان کے درمیان رہ کر ان سے براہِ راست ربط وتعلق قائم کر کے ان کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ کرتے ہوئے اسلام اور تشیع کے لبادہ میں چھپے ہوئے علمائے اغیارا ور دانستہ یا نادانستہ دشمنوں کو خود بھی پہچاننا اور ان قوم کو بھی روشناس کرانا ہوگا۔ اس لئے کہ نازک حالات اور پر آشوب دور میں ہم غیروں سے زیادہ اپنوں کی سازش کے شکارہیں ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .